&
اس سال انسولین کی دریافت کو سو سال پورے ہوگئے۔
انسولین ہمارے جسم کا ایک اہم ہارمون ہے جو کہ لبلبہ کے خاص خلیوں "islets of langerhans" سے خارج ہوتا ہے۔ اس ہارمون کا کام خون میں گلوکوز لیول کو کنٹرول کرنا (کم کرنا) ہوتا ہے۔ دراصل ہمارے کھانے سے جو گلوکوز ہمارے خون میں اتا ہے، اس گلوکوز کو خلیوں میں داخل کرنے کے لیے انسولین ہارمون کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن اشخاص میں یہ ہارمون نہیں بنتا وہ شوگر (diabetes mellitus type 1) کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انسولین نہ بننے کی وجہ آٹو امیون رسپانس ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم کا امیون سسٹم اپنے ہی جسم کے لبلبے کے خلیوں کو ختم کرنے لگ جاتا ہے ، جس وجہ سے لبلبہ مناسب مقدار میں انسولین نہیں بنا پاتا اور جسم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بیرون جسم سے انسولین لینی پڑتی ہے۔
ٹائپ 1 ذیابیطس کی دریافت بیسویں صدی سے پہلے ہوچکی، البتہ ذیابیطس کا ذکر قدیم مصری طب میں بھی ملتا ہے جو تقریباً 522 بی سی کے زمانے سے موجود ہے۔ انسولین کی دریافت سے پہلے اسے قدیم طب میں کبھی گردوں کی بیماری کہا جاتا اور کبھی خون کی۔
بیسویں صدی میں ڈاکٹروں کو یہ بات واضح ہوئی کہ شوگر کا تعلق میٹھی اور زیادہ کلیریز والی خوراک سے ہے۔ اس لیے میٹھا کھانا چھوڑنے سے مریضوں میں کچھ بہتری آتی۔
انسولین کی دریافت سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ لبلبہ کوئی ایسا کیمکل خارج کرتا ہے جو کاربوہائیڈریٹس کے میٹابولزم میں کردار ادا کرتا ہے۔ اس کیمکل کو دریافت کرنے میں سالوں محنت کی گئی ، مختلف جانوروں کے لبلبوں کو نکالا گیا اور ان پر مختلف تجربات کیے گئے۔
ایک ہڈیوں کے سرجن Frederick Banting نے ایک کتے کے لبلبے سے islets (انسولین بنانے والے خلیے) کو علیحدہ کیے اور ان پر تجربات کیے۔ پھر Frederick Banting نے یونیورسٹی اف ٹورنٹو میں کی لیبارٹری میں مذید تجربات کیے جن میں پروفیسر Macleod اور assistant Charles Best نے انکی مدد کی ۔ آپریشن کے ذریعے کتوں کے لبلبے نکالے گئے جن سے انھوں نے دیکھا کہ لبلبے کے بغیر کتے ذیابیطس کے مرض کا شکار ہوگئے، انھی نکالے گئے لبلبوں سے جب انھوں نے solution کی شکل میں انسولین نکالی اور یہ solution ان کتوں میں اینجیکٹ کیا تو ذیابیطس کا شکار ان کتوں کے بلڈ گلوکوز لیول میں کمی واقع ہوئی۔ اس solution کو "isletin" کا نام دیا گیا۔ 1921 کے آخر میں بائیو کیمسٹ J.B Collip نے اپنے گروپ کے ہمراہ اس isletin کی pure شکل تیار کی اور اسکو انسانی استعمال کے قابل بنایا۔ پھر 1922 کے شروع میں اسے ایک 14 سالہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا لڑکے میں اینجیکٹ کیا گیا ، جس میں بلڈ شوگر لیول میں کمی واقع ہوئی، بعد میں اسے اور مریضوں میں اینجیکٹ کیا گیا اور وہاں بھی حوصلہ افضا نتائج ملے۔
ان تینوں (Banting، Macleod اور Best) کو 1923 میں نوبل پرائز ملا۔
اسکے بعد انسولین کی تیاری میں مزید بہتری آتی گئی ، بہت عرصے تک جانوروں سے حاصل کیے جانے والی انسولین انسانوں میں استعمال ہوتی رہی۔ پھر 1978 میں بیکٹیریا کے ذریعے انسولین بنانے میں کامیابی ملی (genetic engeering) اور انسولین وہ پہلی دوائی قرار پائی جو کہ Biotechnology سے بنائی گئی تھی۔
حکومت پاکستان نے انسولین کی دریافت کے سو سال پورے ہونے پر خاص ڈاک ٹکٹ بھی جاری کی۔۔
Post a Comment